نادرا نے آرمی چیف کی فیملی کے ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی کی تحقیقات کو حتمی شکل دے دی

نادرا یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایسی معلومات کس نے لیک کیں جو جنرل عاصم منیر کو گزشتہ سال آرمی چیف بننے سے روک سکتی تھیں۔

متعدد ذرائع کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2022 میں آرمی چیف کے عہدے کے لیے پانچ سینئر لیفٹیننٹ جنرلز امیدوار تھے۔ دریں اثنا، نادرا کے ایک جونیئر ڈیٹا انٹری آپریٹر نے مبینہ طور پر جنرل عاصم منیر شاہ کے خاندان کی خاتون رکن کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور خاندان کی تفصیلات اور شناختی کارڈ نمبر اکٹھے کر لیے۔

اس ڈیٹا کو بعد میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم (آئی بی ایم ایس ) میں خاندان کے بین الاقوامی سفری مقامات کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ وزیر اعظم نے ڈیٹا لیک ہونے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں فاروق احمد (جونیئر ایگزیکٹو)، رحمان بٹ (ڈپٹی ڈائریکٹر)، رشید احمد (اسسٹنٹ ڈائریکٹر)، سیف اللہ (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر)، ساجد سرور (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ) اور ایم علی (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر) کو معطل کردیا گیا۔ 

ابتدائی طور پر انکوائری کی نگرانی ریٹائرڈ بریگیڈیئر خالد لطیف نے کی، جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے قریبی ساتھی کے طور پر شناخت ہوئے جس کے بعد انہیں  مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ سینئر افسر علی جاوید نے تحقیقات کیں۔ انکوائری کے دوران نادرا کے دو افسران خالد عنایت اللہ اور امیر بخاری کو ڈیٹا تک رسائی کے اہم کرداروں کے طور پر شناخت کیا گیا۔ دونوں افسران نے مبینہ طور پر دعویداروں کے قریبی رشتہ داروں کو ڈیٹا کی درخواست کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا۔

توقع ہے کہ جاری انکوائری سے جلد ہی اس کہانی میں ملوث نادرا کے اصل چہرے بے نقاب ہوں گے۔ نادرا کے ایک اعلیٰ اہلکار نے معاملے کی حساسیت اور تحقیقات کی جاری نوعیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو  انکوائری کی تصدیق کی۔

واضح رہے کہ نادرا کے چھ جونیئر اہلکاروں  کو تاحال ان کے عہدوں پر بحال نہیں کیا گیا ہے۔ مزید برآں حال ہی میں بریگیڈیئر (ر) خالد لطیف اور تین دیگر فوجی اہلکاروں کو مستعفی ہونے کا موقع دیا گیا۔ 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں