شب قدر اور رمضان کی ستائسویں شب

یہ ہمارا ایک المیہ بنتا جارہا ہے کہ عوام الناس کی بھاری اکثریت رمضان کریم کی ستائیسویں شب کو ہی شب قدر سمجھنے لگی ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ لوگ  رمضان کی باقی راتوں یا دیگر طاق راتوں میں اس شوق سے عبادت نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی تعیین نہیں فرمائی تھی۔ لیکن لوگ اپنے تئیں ستائیسویں رات کو ہی شب قدر خیال کرتے ہیں۔اس کا واضح ثبوت ہمارے سامنے ہے،عام مشاہدہ ہے کہ اس رات شہر اور دیہات کی تقریبا تمام مساجد میں لوگوں کا ساری رات جاگنے کا معمول ہوتا ہے،جب کہ رمضان کی دوسری راتیں یا دیگر طاق راتوں میں ذکر و تلاوت کا وہ ماحول نہیں بن پاتا۔

 حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تحروا لیلة القدر فی الوتر من العشر الأواخر من رمضان

(بخاری شریف)

ترجمہ: شب قدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو!

یہ مقدس رات قرآن پاک میں ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دی گئی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہے۔اس رات کو پانے کے لیئے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا طریقہ اختیار کیا ہے۔

ایک دفعہ شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم رحمہ اللہ نے انتہائی درد دل کے ساتھ فرمایا:

“آہ،لوگ دیگر راتوں میں سستی کرتے ہیں اور صرف ستائیسویں شب ذکر و فکر میں مشغول ہوتے ہیں،جیسے انہیں وحی آگئی ہو کہ یہی قدر کی رات ہے۔کیا معلوم کہ اکیسویں ہو،تئیسویں ہو،پچیسویں ہو یا انتیسویں ہو اور ہم لوگ اس عظیم بابرکت رات کی سعادتوں اور نیکیوں سے محروم ہو جائیں۔آپ فرماتے تھے کہ اس کوتاہی میں وہ لوگ بھی برابر درجے کے شریک ہیں جو ستائیسویں شب ہی قرآن پاک مکمل کرنے کا اہتمام یا التزام کرتے ہیں۔”

ہمارا مدعا یہ ہے کہ اہل علم کے طبقے کو چاہیے کہ دیگر راتوں میں بھی تکمیل قرآن پاک کی تقاریب منعقد کرے اور دوسرا اپنے نمازیوں اور لوگوں کو اچھے سے باور کرائے اور سمجھائے کہ بھائی! یہ شب برأت یا شب معراج نہیں ہے،جس کی پہلے سے تعیین کردی گئی ہو۔

شب قدر کا ثواب بہت زیادہ ہے،اس لیے اسے مختلف راتوں میں چھپادیا گیا ہے،جتنا بڑا اجر اور اس شان کی محنت اور عمل بھی ہونا چاہیے۔ خدارا! صرف ستائیسویں شب ہی کو یہ رات نہ سمجھا جائے۔

اس عوامی تأثر کو زائل کرنے کے لیئے علماء کرام کو مندرجہ بالا اقدامات اٹھانے چاہئیں،نہیں تو امت کا ایک بہت بڑا حصہ اس عظیم رات کی برکات و خیرات حاصل نہیں کر پائے گا۔اس کا کسی درجہ میں ہمیں بھی بہت گناہ ہوگا۔ 

اگرچہ ہمارے کچھ سلف صالحین اور فقہاء ستائسویں شب میں تراویح میں قرآن پاک کا ختم کیا کرتے تھے مگر دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ  کے مطابق ہمارے بہت سے اکابر کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ آخری شب کو قرآن مکمل کرتے تھے ۔اس کے کئی ایک فوائد ہیں۔ایک تو قرآن پاک اطمینان سے صاف صاف پڑھا جاتا ہے،دوسرے یہ پورے رمضان میں ایک پارہ قرآن سننے کی سعادت وبرکت حاصل ہوتی ہے،تیسرے یہ کہ سب لوگ اخیر رمضان تک تراویح عزت واحترام اور قدردانی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور قرآن بھی قدر ومنزلت کے ساتھ سنتے ہیں،  پندرہ دن میں ختم کرنے کے بعد نہ تراویح کا کوئی ادب اور عزت واحترام رہتا ہے نہ قرآن کا ادب واحترام رہتا ہے، اپنی من مانی کرکے شریعت کی ناقدری نہ کرنی چاہیے۔ اسلاف کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔

شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم نور اللہ مرقدہ بھی اپنے جامعہ خالد بن ولید وہاڑی میں انتیسویں شب قرآن پاک ختم کراتے تھے اور اس موقع پر زار و قطار روتے ہوئے طویل دعا کرایا کرتے تھے۔ یہ یاد رہے کہ ستائیسویں شب قرآن کریم ختم کرنا شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں ہے مگر اسے اس قدر درجہ دے دینا،جس سے عوام میں یہ وہم پیدا ہونے لگے کہ شب قدر یہی رات ہوتی ہے،یہ ایک قابل ترک امر ہے۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں